اهل البيت
هل تريد التفاعل مع هذه المساهمة؟ كل ما عليك هو إنشاء حساب جديد ببضع خطوات أو تسجيل الدخول للمتابعة.

اهل البيت

اسلامي احاديث خطب ادعية
 
الرئيسيةأحدث الصورالتسجيلدخول

 

 حديث قران كريم

اذهب الى الأسفل 
كاتب الموضوعرسالة
Admin
Admin
Admin


المساهمات : 672
تاريخ التسجيل : 21/04/2016

حديث قران كريم Empty
مُساهمةموضوع: حديث قران كريم   حديث قران كريم Emptyالأحد يناير 22, 2017 3:56 am

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :"لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي"۔(۱۲)،  اگر مشرق و مغرب میں رہنے والے مر جائیں تو مجھے تنہائی کی وحشت خوف زدہ نہیں کرسکتی جبکہ قرآن میرے ساتھ ہو ۔

۔قرآن میں نظر کرنا :

قرآن کو دیکھ کر پڑھنے بڑی فضیلت ہے، اگرچہ حافظین قرآن زبانی پڑھ سکتے ہیں، قرآن کی آیتوں کو دیکھنے سے دلوں کو آرام ملتا ہے، اس سلسلہ میں اسحاق بن عمار نے امام صادقؑ سے عرض کیا، میری جان آپ پر قربان ہو میں نے قرآن کو حفظ کیا ہے اسے دیکھ کر پڑھوں یا زبانی ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:"بَلِ اقْرَأْهُ وَ انْظُرْ فِي الْمُصْحَفِ فَهُوَ أَفْضَلُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّظَرَ فِي الْمُصْحَفِ عِبَادَةٌ"۔(۱۵)، قرآن میں دیکھ کر پڑھو اس لئے کہ قرآن کو دیکھ کر پڑھنا افضل ہے (اس میں زیادہ ثواب ہے)کیا تم کو نہیں معلوم کہ قرآن میں دیکھنا(پڑھنے کے علاوہ)ایک مستقل عبادت ہے ؟ ۔

۹ ۔ قرآن کریم سے اُنس :

ہم اس کلام الٰہی سے جس قدر بھی استفادہ کریں کم ہےکیونکہ قرآن اور اس کی تلاوت اہل دل مسلمانوں کے لئے بہترین مونس و ہمدم ہے،مسلمانوں کو جس طرح قرآن کے عمیق معانی و مفاہیم پر توجہ کرنی چاہئے اسی طرح انھیں اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں نمونۂ عمل بھی بنانا چاہئے، اس کی ظاہری خوبصورتی اورعمیق مطالب پر بھی توجہ کریں ۔امام علی علیہ السلام اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں :"أَنَّ الْقُرْآنَ ظَاهِرُهُ أَنِيقٌ وَ بَاطِنُهُ عَمِيقٌ لَا تَفْنَى عَجَائِبُهُ وَلَا تَنْقَضِي غَرَائِبُهُ وَلَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِهِ"۔(۱۱)، بیشک قرآن کا ظاہر زیبا و خوبصورت اور اس کا باطن گہرا وعمیق ہےاس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں کا خاتمہ اس کے علاوہ کسی کلام سے نہیں ہوسکتاہے ۔لہذا ہمیں قرآن کو بہترین انداز میں پڑھنے پر توجہ دینی چاہئے اس کے ذریعہ اپنے دل و جان کو صیقل کرنا چاہئے ۔


۔ سچا و بہترین ہمنشین :

وَ مَاجَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْهُ بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ زِيَادَةٍ فِي هُدًى وَ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى۔(۱۰)اور کوئی شخص اس کے پاس نہیں بیٹھتا ہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے تو ہدایت میں ضافہ کرلیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کرلیتا ہے ۔کتنی عمدہ و بہترین تعبیر ہے فہم قرآن اور تلاوت قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہمنشین کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے جس کے نتیجہ میں جمال ہمنشین سے متاثر ہوتا نیز استفادہ کرتاہے ،مسلمان کا تعلق صرف قرآن کے الفاظ ہی سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے عظیم مطالب ومعانی سے بھی ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہوسکے اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ہدایت میں اضافہ اور گمراہی میں کمی کرسکے ۔


شاہراہ قرار دیا ہے ۔

حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالبؑ نے قرآن کے امتیازات میں کتنے اہم نکات بیان کئے ہیں جن میں سےہم کچھ اہم اور قابل توجہ نکات کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں اگرچہ ایک ایک جملہ میں مطالب کے سمندر پائے جاتے ہیں :

۱ ۔ روشن چراغ  :

وَ سِرَاجاً لَا يَخْبُو تَوَقُّدُهُ ،اور اس جس کے چراغ کی لَو مدّھم نہیں پڑسکتی ہے ۔امامؑ کے اس خطبہ میں یہ جملہ اور اس کے مانند جو جملے استعمال ہوئے ہیں ان سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے حقائق و مفاہیم تمام ہونے والے نہیں ہیں جس کا مشاہدہ آج بھی دنیا کررہی ہے،اس کی آیتیں، احکام، حقائق و معارف جاودانی اور ہمیشہ تر وتازہ ہیں ۔

۲ ۔ راہ مستقیم :

وَ مِنْهَاجاً لَا يَضِلُّ نَهْجُهُ، اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا ہے ۔اس جملہ سے حضرتؑ کی مراد یہ ہے کہ قرآن کریم ایسے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ جو شخص اس پر چلے کا ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتا اور ضلالت و ہلاکت میں گرفتار نہیں ہوسکتا ہے ، اس لئے کہ پروردگار نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت ، رہنمائی و سعادت کےلئے بھیجا ہے تاکہ اپنے پیروکاروں کو گمراہی و ہلاکت سے بچا کر نجات عطا کرے ۔

۳ ۔ بیان واضح :

وَ تبيَانًا لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُهُ، ایسی وضاحت جس کے ارکان منہدم نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کے اصول و براہین خلل ناپذیر ہیں،اس جملہ کے معنی میں دو احتمال پائےجاتےہیں، ۱)۔یہ ہے کہ قرآن کریم کے معارف ، تعلیمات اور اس کے حقائق کی تمام بنیادیں قانونِ طبیعت و فطرتِ بشری پر اس طرح محکم و استوار ہیں کہ کسی بھی طرح کااس میں تزلزل،خلل و انہدام نہیں پایا جاسکتا ہے ۔۲)۔ دوسرے یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ، کلمات وجملات اس کی حقیقت کو بتاتے ہیں کہ جو قابل تغیر و تبدل نہیں ہیں اور کسی طرح کا کوئی خلل ،کمی و زیادتی کا امکان نہیں ہے،اس احتمال کی بناپر اس جملہ میں قرآن کریم کے تحریف سے محفوظ ہونے کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، یہ دونوں احتمال قرآن کے متعلق صحیح و صادق ہیں ۔

۴ ۔ کامل شفاء:

وَ شِفَاءً لَا تُخْشَى أَسْقَامُهُ،اور ایسی شفاء جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ایک شفاء وہ ہوتی ہے کہ جس کے بعد بیماری واپس آجاتی ہے اور یک وہ شفاءہے جس کے بعد بیماری نہیں پلٹتی ہے اس شفا ءکاملنا ہی کامل شفا ہوا کرتی ہے، قرآن سے ایسی شفاء حاصل ہوتی ہے جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں رہ جاتا ہے، اس میں بہت بڑے بڑے امراض کی شفاء ہے جیسا ایک جگہ حضرت امیرؑ فرماتے ہیں :فَإِنَّ فِيهِ شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ وَ هُوَ الْكُفْرُ وَالنِّفَاقُ وَالْغَيُّ وَالضَّلَالُ۔ (۹)، اس میں بدترین بیماری سے شفاء ہے اور وہ کفر ، نفاق ، گمراہی اور بے راہ روی ہے ۔

۵ ۔ حق وحقیقت کی وادی :

وَ أَوْدِيَةُ الْحَقِّ وَ غِيطَانُهُ،حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے ۔ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ قرآن حق و حقیقت کی تربیت، پرورش اور نشو و نما کی جگہ و میدان ہے، اس جملہ میں اسے ایسی وسیع وادیوں سےتشبیہ دی گئی ہے جس میں سبزہ جات بے خوف وخطر اُگتے اور پھول کھلتے ہیں ، اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو بھی قرآن کے علاوہ کسی دوسرے راستہ سے حق کو تلاش کرے گا وہ ہرگز اس تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اس لئے کہ فقط قرآن ہے جو بوستان و گلزار حق وحقیقت ہے اور حق وحقیقت کو قرآن کے علاوہ دوسری جگہوں پر نہیں پایا جاسکتا ہے ۔

۶ ۔ معارف و حقائق کا سمندر :

وَ بَحْرٌ لَا يَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُونَ، یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کرسکتے ہیں ۔ یہ اور اس کے بعد کے جملوں کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں نے اپنے کو قرٓن کے حقائق، معارف اور معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لئے آمادہ کرلیا ہے وہ اس کے عمق و گہرائی تک نہیں پہونچ سکتے اور ان کا احاطہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ قرآن کے اسرار اور رموز تمام ہونے والے نہیں ہیں ،اس جملہ سے دوسرے معنی کا بھی استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کے حقائق و اسرار حاصل کر لینے سے وہ کم ہونے والے نہیں ہیں اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہوسکتی ہے، جس طرح منبع و مخزن رکھنے والے چشموں سے استفادہ کرنے سے اس کے پانی میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے ۔

۷ ۔ حقائق و معانی کا کوہسار:

وَ آكَامٌ لَا يَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُونَ،اور وہ کوہسارہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جاسکتے ہیں ۔  امام علیؑ کی مراد یہ ہوسکتی ہے کہ جو محققین،سعی و تلاش کرنے والے قرآن کے حقائق و مفاہیم تک پہنچنے کی فکر میں ہیں وہ ان حقائق و مفاہیم کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور نہ اس سے گزر سکتے ہیں، طائرِ فکرِ بشر جس قدر بھی پرواز کرے اور بلندی پر پہنچے وہ قرآن کریم کے لطائف و حقائق کی عظیم بلندی تک رسائی سے پہلے خستگی کا احساس کرکے پرواز کی طاقت کھو بیٹھتا ہے ، اس جملہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن کے بطون اور تہہ بہ تہہ حقائق و مختلف معانی ہیں جن کو بطور کامل سمجھنے سے فکرِبشر عاجز و ناتواں ہے ۔ اس جملہ کے ایک اور معنی بھی سمجھ میں آتے ہیں وہ یہ کہ جب قرآن کے حقائق و معانی درک کرنے والے اس کی بلند چوٹی پر پہنچتے ہیں تو ٹھہر جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی تاب نہیں رہتی، زبان خاموش ہوجاتی ہے چونکہ اس مرحلہ پر پہنچ کر در واقع وہ اپنی آرزؤاور بلندمقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں ۔



اہل بیت علیہم السلام سے بھی قرآن کے بارے میں کتابوں میں بے شمار حدیثیں منقول ہیں ان میں سے چند احادیث کو ہم معرض تحریر میں لاتے ہیں ،امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے : ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ نُوراً لَا تُطْفَأُ مَصَابِيحُهُ وَ سِرَاجاً لَا يَخْبُو تَوَقُّدُهُ وَ بَحْراً لَا يُدْرَكُ قَعْرُهُ وَ مِنْهَاجاً لَا يَضِلُّ نَهْجُهُ وَ شُعَاعاً لَا يُظْلِمُ ضَوْءُهُ وَ فُرْقَاناً لَا يَخْمَدُ بُرْهَانُهُ وَ تبيَانًا لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُهُ وَ شِفَاءً لَا تُخْشَى أَسْقَامُهُ وَ عِزّاً لَا تُهْزَمُ أَنْصَارُهُ وَ حَقّاً لَا تُخْذَلُ أَعْوَانُهُ‌، فَهُوَ مَعْدِنُ الْإِيمَانِ وَ بُحْبُوحَتُهُ وَ يَنَابِيعُ الْعِلْمِ وَ بُحُورُهُ وَ رِيَاضُ الْعَدْلِ وَ غُدْرَانُهُ وَ أَثَافِيُّ الْإِسْلَامِ وَ بُنْيَانُهُ وَ أَوْدِيَةُ الْحَقِّ وَ غِيطَانُهُ وَ بَحْرٌ لَا يَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُونَ وَ عُيُونٌ لَا يُنْضِبُهَا الْمَاتِحُونَ وَ مَنَاهِلُ لَا يُغِيضُهَا الْوَارِدُونَ وَ مَنَازِلُ لَا يَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُونَ وَ أَعْلَامٌ لَا يَعْمَى عَنْهَا السَّائِرُونَ وَ آكَامٌ لَا يَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُونَ جَعَلَهُ اللَّهُ رِيّاً لَعَطَشِ الْعُلَمَاءِ وَ رَبِيعاً لَقُلُوبِ الْفُقَهَاءِ وَ مَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَاءِ…‌۔(۸)،پھر  ان پر اپنی اس کتاب کو نازل کیا جس کی قندیل بجھ نہیں سکتی ہے اور اس کے چراغ کی لَو مدّھم نہیں پڑسکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی و تھاہ مل نہیں سکتی ہے اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا ہے ایسی شعاع جس کی ضو تاریک نہیں ہو سکتی ہے اور ایسا حق و باطل کا امتیاز جس کی دلیل وبرہان کمزور نہیں ہوسکتا ہے ، ایسی وضاحت جس کے ارکان منہدم نہیں ہوسکتے ہیں اور ایسی شفاء جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے ، ایسی قدرت جس کے انصار پسپا نہیں ہوسکتے ہیں اور ایسا حق جس کے اعوان شکست نہیں کھاسکتے ہیں ،یہ (قرآن)ایمان کا معدن و مرکز، علم کا چشمہ اور سمندر ، عدالت کا باغ اور حوض ، اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے ، یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کرسکتے ہیں اور وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے خشک نہیں کرسکتے ہیں ، وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کرسکتے ہیں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بھٹک نہیں سکتے ہیں ، وہ نشانِ منزل ہے کو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکتا ہے اور وہ کوہسارہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جاسکتے ہیں ،اللہ نے اسے علماء کی سیرابی کا ذریعہ ، فقہاء کے دلوں کی بہار ، صلحاء کے راستوں کے لئے شاہراہ قرار دیا ہے ۔


حضرت ختمی مرتبت رسول اکرم ﷺنے قرآن کے متعلق ارشاد فرمایا  ہے :"فَضْلُ الْقُرآنِ عَلي سائِرِ الْكَلامِ كَفَضْلُ اللهِ عَلي خَلْقِهِ"۔ (۶)،قرآن کی فضیلت و برتری تمام کلام پر اسی طرح ہے جس طرح پروردگار کی برتری اس کی ساری مخلوقات پر ۔  بنابر ایں بہت مناسب اور بہتر ہوگا کہ قرآن کی فضلیت و عظمت کے بیان میں ہم راسخون فی العلم اور اس کے ماہرین کی پیروی کریں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے اسی سے استفادہ کریں  ، کیونکہ وہ حضرات تمام لوگوں سے بہتر قرآن کی عظمت و حقائق سے آشنائی رکھتے ہیں ، ان ہی پاک وپاکیزہ ہستیوں کو معلم قرآن کی عنوان سے دنیا میں بھیجا گیا ہے ، وہ ہدایت و رہنمائی میں قرآن کی ہم رتبہ اورثقل شمار کئے جاتے ہیں ۔

http://paktorbat.blogfa.com/1392/09
الرجوع الى أعلى الصفحة اذهب الى الأسفل
https://duahadith.forumarabia.com
 
حديث قران كريم
الرجوع الى أعلى الصفحة 
صفحة 1 من اصل 1
 مواضيع مماثلة
-
» حديث عن رزق
» حديث --------
» حديث عن ظلم
» حديث عن زهد
» حديث عن صمت

صلاحيات هذا المنتدى:لاتستطيع الرد على المواضيع في هذا المنتدى
اهل البيت :: الفئة الأولى :: quran dua hadith in urdu باللغة الباكستان :: حديث-
انتقل الى: