اهل البيت
هل تريد التفاعل مع هذه المساهمة؟ كل ما عليك هو إنشاء حساب جديد ببضع خطوات أو تسجيل الدخول للمتابعة.

اهل البيت

اسلامي احاديث خطب ادعية
 
الرئيسيةأحدث الصورالتسجيلدخول

 

  امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور جاثلیق نصرانی کا اعتراض

اذهب الى الأسفل 
كاتب الموضوعرسالة
Admin
Admin
Admin


المساهمات : 672
تاريخ التسجيل : 21/04/2016

 امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور جاثلیق نصرانی کا اعتراض Empty
مُساهمةموضوع: امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور جاثلیق نصرانی کا اعتراض    امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور جاثلیق نصرانی کا اعتراض Emptyالثلاثاء يناير 17, 2017 1:32 am

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ضرب الجفاف مدينة سامرّاء ، فأمر الخليفة بإقامة صلاة الإستسقاء ، فصلّى الناس ثلاثة أيام لكن دون جدوى .
وفي اليوم الرابع خرج " الجاثليق " ومعه أتباعه من الرهبان والنصارى إلى الصحراء ، فمدّ أحدُ الرهبان يديه بالدعاء ، فهطل المطر غزيراً .
شكّ الناس في حقّانية الإسلام وأنه أفصل الأديان ، وقال بعضهم :
- لو كان النصارى على الباطل ، ما استجاب الله دعاءهم .
وفكر بعض المسلمين في اعتناق النصرانية .
كان الإمام الحسن العسكري في السجن ، فجاءه حاجب الخليفة يقول : إلحق أمّة جدّك ( صلى الله عليه وآله ) فقد شَكَّت في دين الله .
خرج الجاثليق ومعه الرهبان مرّة أخرى وخرج الإمام الحسن ( عليه السلام ) ، كان الإمام يراقبهم جيداً فرأى أحد الرهبان يرفع يده اليمنى ، فأمر بعض مماليكه بأن يمسك بها ويرى ما فيها ، فأمسكوا بها ورأوا بين الأصابع عظماً أسود ، فأخذه الإمام (عليه السلام ) وقال للرهبان : استسقوا الآن .
رفع الرهبان أيديهم بالدعاء وكانت السماء غائمة ، فانقشع الغيم وسطعت الشمس .
سأل الخليفةُ الإمامَ عن السرّ ، فقال الإمام : إنّ هذا الراهب مرّ بقبر نبي من الأنبياء ، فوقع في يده هذا العظم ، وما كشف عن عظم نبيّ إلاّ وهطلت السماء بالمطر .

    تاریخ میں منقول ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری( علیہ السلام) سامرا میں قید میں تھے اس وقت لوگوں کو ایک شدید قحط کا سامنہ کرنا پڑا اس وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں اور نماز استسقاء پڑھیں اور خداوند متعال سے بارش کے لئے دُعا مانگیں، مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
    چوتھے دن جاثلیق نصرانی، نصاريٰ اور مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لئے صحرا گئے وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش ہونے لگی، اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کے لئے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے پانی برسنا شروع ہوگیا اور لوگ سیراب ہوئے، لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا اور اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے اور بعض نے تو اسلام چھوڑ کر مسیحیت کو اپنا دین منتخب کرلیا، خلیفۂ وقت کیلیے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح ابن وصیب کو حکم دیا کہ امام عسکری(علیہ السلام) کو آزاد کر دے۔ معتمد نے سارا ماجرا امام(علیہ السلام) سے بیان کیا۔
    امام(علیہ السلام) نے  فرمایا: لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں، معتمد نے کہا: لوگوں کو پانی مل گیا ہے لہٰذا اُنہیں ضرورت نہیں ہے کہ صحرا کو جائیں اور طلب باران کریں، حضرت نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کے لوگوں کے ذہنوں سے شک اور شبہہ کو نکال دوں اور اُنہیں اس سے نجات دلاؤں۔
    معتمد عباسی نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں، معتمد کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے، تمام مسیحوں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا، اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا، اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش ہونے لگی۔
    اس موقع پر امام حسن عسکری( علیہ السلام) نے لوگوں کے ذہنوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفيٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا: اپنے ہاتھوں کو کھولو، جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے، امام( علیہ السلام ) نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی اور ایک کپڑے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا: اب طلب باران کرو، راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے بادل اِدھر اُدھر ہونے لگے اور سورج ظاہر ہوگیا۔
    لوگوں نے اس واقعہ سے مزید تعجب کیا، اس وقت معتمد عباسی نے امام(علیہ السلام) سے سوال کیا: اس امر کی وجہ بیان فرمائیں۔ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان لوگوں نے کسی قبرستان سے ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش ہونا شروع ہو جاتی ہے، لوگوں نے امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی وضاحت پر یقین کرلیا، پھر اسی طرح خود بھی آزما کر دیکھا تو قضیہ ویسا ہی تھا جیسا ٘امام(علیہ السلام) نے بیان فرمایا تھا۔
    اس ماجرا کے بعد حضرت سامرا واپس لوٹے اور لوگوں کے ذہنوں سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے، اس سے معتمد عباسی اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے، امام(علیہ السلام) نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی معتمد عباسی سے فرمایا، اس  نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے[۱]۔

تفصیل کےلئے اس کتاب کی طرف مراجعہ فرمائیں؛
موسى خسروى، زندگانى حضرت جواد و عسكريين(عليهم السلام )( ترجمه جلد 50 بحار الأنوار)، اسلاميه - تهران، چاپ: دوم، ص۲۲۶،  ۱۲۶۴ ش.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ ابن شھر آشوب، مناقب آل ابی طالب، علامہ، ج۴، ص۴۲۵۔ اس کتاب سے نقل کیا گیا: علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۳۹، ۱۳۸۴ش۔

فيلسوف العراق :
كان " إسحاق الكندي " فيلسوف العراق في زمانه ، وكان قد بدأ بتأليف كتاب حول تناقض القرآن . ودخل أحد تلاميذ الكندي على الإمام الحسن ( عليه السلام ) فقال الإمام : أما فيكم رجل رشيد يردع أستاذكم الكندي عما أخذ فيه من تشاغله بالقرآن ؟
فقال التلميذ : أنا لا أستطيع الاعتراض عليه .
فقال الإمام : قل له حضرتني مسألة أسألك عنها : إن أتاك هذا المتكلم بهذا القرآن ، هل يجوز أن يكون مراده بما تكلّم به منه غير المعاني التي قد ظننتها ؟ فإنه سيقول : إنه من الجائز ، لأنه رجل يفهم إذا سمع ، فإذا أوجب ذلك فقل له : فما يدريك لعلّه قد أراد غير الذي ذهبت أنت إليه فتكون واضعاً لغير معانيه .
سأل التلميذ أستاذه الكندي بذلك ، فقال الكندي أعد السؤال ، فأعاده إليه . فأطرق الفيلسوف مفكراً ، ورأى أن ذلك محتمل في اللغة وسائغ في النظر ، فأنهارت بذلك الفكرة التي نهضت عليها نظريته ، وقام فأحرق الكتاب .


حضرت امام حسن عسکری کاعراق کے ایک عظیم فلسفی کوشکست دینا

مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوارہواکہ قرآن مجیدمیں تناقض ثابت کرے اوریہ بتادے کہ قرآن مجیدکی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتاہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھناشروع کی اوراس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اورکہیں آناجانا سب ترک کردیا حضرت امام حسن عسکر ی علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کاارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسااعتراض کردیاجائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سے اورمجبورااپنے ارادہ سے بازآئے ۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کاایک شاگرد حاضرہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسانہیں ہے جواسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے بازرکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کاشاگردہوں، بھلااس کے سامنے لب کشائی کرسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ اچھایہ توکرسکتے ہو کہ جومیں کہوں وہ اس تک پہنچادو، اس نے کہاکرسکتاہوں، حضرت نے فرمایاکہ پہلے توتم اس سے موانست پیداکرو، اوراس پراعتبارجماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اورتمہاری بات توجہ سے سننے لگے تواس سے کہناکہ مجھے ایک شبہ پیداہوگیاہے آپ اس کودورفرمادیں، جب وہ کہے کہ بیان کروتوکہناکہ ”ان اتاک ہذالمتکلم بہذاالقرآن ہل یجوزمرادہ بماتکلم منہ عن المعانی التی قدظننتہا انک ذہبتھا الیہا“
اگراس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے توکیاہوسکتاہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کاہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی ومطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا توچونکہ ذہین آدمی ہے فوراکہے گا کہ بے شک ایساہوسکتاہے جب وہ یہ کہے توتم اس سے کہناکہ پھرکتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیافائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کراس پراعتراض کررہے ہو ،ہوسکتاہے کہ وہ خدائی مقصودکے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اوربرباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہوسکتاہے کہ تمہارا سمجھاہوا مطلب صحیح اورمقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طورپرنہیں توتناقض کہاں رہا؟ ۔
لغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اوراس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھراعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیرکے لیے محو تفکرہوگیا اورکہنے لگا کہ بے شک اس قسم کااحتمال باعتبار لغت اوربلحاظ فکروتدبرممکن ہے پھراپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہواکربولا! میں تمہیں قسم دیتاہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایاہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوارہے اسحاق نے کہاہرگزنہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیزنہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اوراس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایاتھا اورمیں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پرآپ سے سوال کیاہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہاہے ایسے اعتراضات اورایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمدہوسکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنا رواحرق جمیع ماکان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اورکتاب تناقض القرآن کاسارامسودہ نذرآتش کردیا (مناقب ابن شہرآشوب مازندرانی جلد ۵ ص ۱۲۷ ،بحارالانوار جلد ۱۲ ص ۱۷۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۸۳) ۔
الرجوع الى أعلى الصفحة اذهب الى الأسفل
https://duahadith.forumarabia.com
 
امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور جاثلیق نصرانی کا اعتراض
الرجوع الى أعلى الصفحة 
صفحة 1 من اصل 1
 مواضيع مماثلة
-
» اقوال حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
» اقوال حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
»  امام علی النقی علیه السلام
» حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں دعبل
» اقوال حضرت امام علی النقی الهادي علیہ السلام

صلاحيات هذا المنتدى:لاتستطيع الرد على المواضيع في هذا المنتدى
اهل البيت :: الفئة الأولى :: quran dua hadith in urdu باللغة الباكستان :: خطب-
انتقل الى: