اهل البيت
هل تريد التفاعل مع هذه المساهمة؟ كل ما عليك هو إنشاء حساب جديد ببضع خطوات أو تسجيل الدخول للمتابعة.

اهل البيت

اسلامي احاديث خطب ادعية
 
الرئيسيةأحدث الصورالتسجيلدخول

 

 حديث عن الامانة

اذهب الى الأسفل 
كاتب الموضوعرسالة
Admin
Admin
Admin


المساهمات : 672
تاريخ التسجيل : 21/04/2016

حديث عن الامانة Empty
مُساهمةموضوع: حديث عن الامانة   حديث عن الامانة Emptyالخميس يناير 19, 2017 7:06 am

بسم الله الرحمن الرحيم

قرآن مجید میں خیانت کار کاعذاب

ارشاد رب العزت ہے کے وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمََا غَلَّ یَوْم َ الْقِیٰمَةِ ثُمَّ تُوفیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُونَ، اَفَمَنِ اتَّبَعَ رَضْوَانَ اللّٰہِ کَمَنْ بآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصیْرُ(سورئہ آل عمران ۳ : آیت ۱۶۱،۱۶۲) اور جوخیا نت کرے تو جو چیز خیانت کی ہے قیامت کے دن وہی چیز (بعینہ خدا کے سامنے ) لانا ہوگا اور پھرشخص اپنے کئے کا پورابدلہ پائیگا۔ اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی ۔ بھلا جو شخص خداکی خوشنودی کاپابند ہو۔کیا وہ اس شخص کے برابر ہوسکتاہے جوخدا کے غضب میں گرفتار ہو اورجِس کا ٹھکانہ جہنم ہے؟! اور وہ کیا برا ٹھکانہ ہے!"
سورہ تحریم میں ارشاد ہے : فَخَا نَتاھُمَا فَلَمْ یُغنِیٰاعَنْھُمٰا مِنِ اللّٰہِ شَیْئاً وَّقِیْلَ ادْخُلَا الٰٰناّرَمَعَ الدّاٰ خِلیْنَ (سورہ تحریم ۶۶ آیت ۱۰) " تو ان دونوں (حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں ) نے اپنے شوہروں کے ساتھ خیا نت کی تو ان کے شوہر (نبی ہونے کے باوجود) خداکے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے اور ان دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہوجاوٴ۔"
ارشاد ہے کہ : اِنَّ اللّٰہَ لا یحبُّ الخَائِنیْنَ (سورئہ انفال ۸ : آیت ۵۸) "بے شک خدا خیانت کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا ۔"
اسی طرح ارشاد ہے کہ:
یَایُّھَالَّذیْنَ اٰمَنُو الَا تَخُونُو اللّٰہَ واالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُو اْ اَمٰنتِکُم وَاَنْتم تَعْلَموْنَ
(سورئہ انفال ۸ : آیت ۲۷)
"اے ایمان لانے والو ! نہ توخدا اور رسول کے ساتھ خیانت کرو ، اور نہ ہی تمہارے پاس جو امانتیں ہیں ان میں خیانت نہ کرو، حالانکہ تم تو جانتے ہو( کہ خیانت ایک بڑا گناہ ہے۔ )"
اسی طرح ارشاد ہے کہ: فَاِنْ اَمِنَ بَعَضُکُمْ بَعضًا فلیُوٴَدِّ الَّذِی اوٴْتُمِنَ اَمَانَتَہ وَلْْیَتَّق اِللّٰہَ ربَّہ (سورہ بقرہ ۲ : آیت۲۸۳)
"اگر تم میں سے ایک کادوسرے پر اعتبار ہوتوجس شخص پر اعتبا کیا ہے وہ اعتبارکرنے والے شخص کی امانت پوری کی پوری لوٹادے اوراپنے پروردگار سے ڈرتارہے۔" ارشاد ہے کہ : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَوٴُدُّو الْاَمِانٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا بے شک خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو امانت والوں تک ضرور لوٹا دو ۔ (سورئہ نساء ۴ : آیت نمبر ۵۸)

روایات میں خیانت کی مذّمت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں : مَنْ کَانَ اَمَانَتَہ فی الدُّنیا وَلَمْ یَرُدَّ ھَا اِلٰی اَھْلِھَا ثمّ اَدْرکَہ الْمُوْتُ مَاتَ عَلیٰ غَیْرملّتی "جو شخص دنیا میں اپنے پاس رکھی ہوئی امانت میں خیانت کرے گا اور اسے اس کے مالک تک نہیں لوٹائے گا اور اسے موت آجائے گئی تو وہ میری ملت میں رہتے ہوئے نہیں مرے گا ! " یعنی وہ مسلمان کی موت نہیں مرے گا!"
وَیَلْقٰی اللّٰہَ وَھُوَعَلَیہِ غَضْبٰانُ وَمَن ِاشْترَیٰ خیانَةً وَھُوَیَعْلَمُ فَھُوَکَالّذی خاَنَھٰا(وسائل الشیعہ م کتاب امانت ،باب ۳، صفحہ ۶۴۱) " ایسا شخص جب خدا سے ملاقات کرے گا تو خدا اس پر غضب ناک ہوگا! (اور جو شخص خیانت کا مال خریدے اور وہ یہ جانتا ہو کہ یہ خیانت کا مال ہے تو وہ بھی خیانت کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ "تو وہ بھی خیانت کا مال ہے تو وہ بھی خیانت کا مال خریدے اور وہ یہ جانتا ہو کہ یہ خیانت کا مال ہے تو وہ بھیخیانت کرنے والے شخص کی طرح ہے ۔ " ایک اور حدیث میں ہے کہ فَیُؤمَرُ بِہِ اِلٰی النَّارِ فَیُھْویٰ بِہِ فِی شَفِیْر جَھَنَّمَ (وسائل الشعیہ، کتاب امانت، باب ۲) اور اس کو جہنم میں ڈال دینے کا حکم دیا جائیگا پھر وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے گہرے گڑھے میں پڑا رہے گا!"
آنحضرت کا یہ بھی ارشاد ہے کہ مَنْ کَانَ مُسْلِماً فَلاَ یَمْکُروَلَا یَخْدَعْ " اگر کوئی شخص مسلمان ہے تو اسے نہ تو مکر سے کام لینا چاہیئے اور نہ ہی کسی کو دھوکا دینا چاہیئے! " فَاِنّیٰ سَمِعْتُ جِبْرَئیِْلَ اَنَّ المکْرَوَ الْخَدِیَعَةَ فِی النَّارِ "میں نے جبرئیل سے سنا ہے کہ مکر اور فریب جہنم کی چیزیں ہیں۔" پھر آنحضرت نے فرمایا (ثمَّ قَالَ) لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلماً، وَلَیْسَ مِنّا مَنْ خَانَ مُوْمِناً (وسائل الشیعہ، کتاب امانت، باب ۳) "ہم میں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کو فریب دے اور ہم میں سے نہیں ہے جو خدا پر ایمان لانے والے کسی شخص کے ساتھ خیانت کرے!"
اصول کافی میں یہ حدیث ہے کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جو آدمی کے نفاق کی علامت ہیں اگرچہ وہ نماز روزے کا پابند ہو اور خود کو سچا مسلمان سمجھتا ہو: جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت۔ یہ حدیث نبوی ابھی وعدہ خلافی کے باب میں گذر چکی ہے۔
امیر المئومنین حضرت علی علیہ السَّلام فرماتے ہیں: اَرْبَعَةُ لَا تَدْ خُلُ وَاحِدَةُ مِنّھْنُ بَیْتاً اِلَّا خَرَبَ وَلَمْ یُعَمَّرْ بالبَرَکَةِ "چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر کسی کے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ مالی اعتبار سے تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی برکت کے ساتھ وہ گھر آباد نہیں رہتا: اَلْخیَانَةُ وَالسِّرْقَةُ وَشُرْبَ الْخَمْرِ وَالزِّنَا (وسائل الشیعہ) "خیانت، چوری، شراب خوری اور زنا۔" پس جس گھر کے کسی فرد یا افراد میں ان چار برائیوں میں سے کوئی برائی پائی جائے تو اس گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے اور وہ گھر مالی اعتبار سے تباہ ہو جاتا ہے مثلاً چوری کرنے والے کے گھر سے برکت اٹھتی ہے، نہ یہ کہ جہاں چوری کی جائے۔

خیانت باعث فقر و فاقہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ الْاَ مَانَةُ تَجْلِبُ الْغِنٰی وَالخِیَانَةُ تَجْلِبُ الْفَقْرَ (وسائل الشیعہ، کتاب امانت) "امانت کا لحاظ دولتمندی اور مالی پریشانی سے بے نیازی کا موجب ہے جبکہ خیانت مالی پریشانی اور فقر کا سبب ہے!"
راوی کہتے ہیں کہ : قُلتُ لِاَ بی عَبْدِاللّٰہِ: اِمْرَئَةُ بِالْمَدِنْنَةِ کٰا نِ النّاسُ یَضَعُقںَ عِنْدَھَاالْجَوَارِی فَیَصُلَحْنَ وَقُلْنَا مَاصُبُّ عَلَیْھا مِنَ الرِّزْقِ" میں نے امام جعفرصادق کی خدمت میں عرض کیا: "مدینہ میں ایک خاتو ن ہیں جن کے پاس لوگ تربیت کے لئے اپنی بچیاں چھوڑدیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس جیسی بے نیاز خاتون نہیں دیکھی گئی جو تھوڑی سی روزی میں بھی بڑے آرام سے گزار لیتی ہے۔ اسے کبھی بھی مالی اعتبار سے پر یشان نہیں دیکھا گیا ! " امام نے فرمایا (فَقَالَ) اِنَّھا صَدَقَتِ الحَدِیْث وَاَدَّتِ الْاَمَانَةَ وَذٰلِکَ یَجْلِبُ الرِّزْقَ (وسائل الشیعہ ،کتاب امانت ، پہلاباب، حدیث نمبر ۵) اس لئے کہ وہ خاتون سچ بولتی ہے امانت کا لحاظ کرتی ہے یہ ایسے کام ہیں جو روزی اور کشادہ حالی کا باعث بنتے ہیں ۔"
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی یہ حدیث وسائل الشیعہ میں موجود ہے کہ : "کسی شخص کے لمبے لمبے رکوع وسجود کو نہ دیکھو چونکہ ممکن ہے یہ اس کی عادت ہو ایسی عادت ترک کرنا اس کے لیے سخت مشکل ہو لیکن سچ اور امانت داری کو دیکھو ۔ " یعنی دو خصلتیں ایسی ہیں جو ایمان کے قوی ہونے اور آدمی کے سعاد ت مند ہونے کی دلیل ہیں۔

امانت خواہ کسی کی بھی ہو

ہمارے پاس ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا موضوع یہ ہے کہ امانت خواہ کسی ہو ، اس کا لحاظ واجب ہے اور اس میں خیانت حرام ہے خواہ مسلمان ہو یاکافر ، اس کی امانت کی حفاظت واجب ہے ۔ یہاں تک کہ ناصبی لوگوں یعنی اہل بیت (علیہم السلام) سے کھلّم کھلا دشمنی کا اظہار کرنے والوں کی امانت کابھی خیا ل رکھنا بھی واجب ہے۔ حالانکہ ناصبی لوگ بدترین قسم کے کافر ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں اِتَّقوا اللّٰہَ وَاَدُّوْا الْاَمَانَةَاِلٰی مَن اِئتمَنَکُمْ فَلِوْ اَنَّ قاَتِلَ عَلِیٍّ ائْتَمَنَنِیْ عَلٰٰی اَمانَةٍ لَا اِدَّیْتُھَا اِلِیْہِ (وسائل الشیعہ ، کتابِ امانت، باب۳، صفحہ ۶۴۱)" خدا سے ڈرو ! اور جس شخص نے بھی تمہارے پاس امانت رکھائی ہے اس کی امانت برقت لوٹا دو!۔ اگر علی کا قاتل بھی مجھے امین سمجھے کر میرے پاس کوئی امانت رکھتا تو میں ضرور اسے بروقت لوٹاتا !" اسی حدیث میں ہے کہ فَاتَّقُو اللّٰہ وَاَدُّ وْاالْاَمِنَتَ الیٰ الاَسْوَدِ وَالْاَبْیصَنِ واِنْ کٰانَ حَرُوْ رِیاًّ وَاِنْکَانَ شَامِیاًّ "پس خدا سے ڈرو اور گورے کالے سب کی امانتوں کاخیال ر کھو اگرچہ امانت رکھنے والاشخص خوارج (حضرت علی کے دشمنوں) میں سے ہو اور اگرچہ کہ امانت رکھنے والا شخص شام کا رہنے والا ہو (اہل بیت کے خلاف لڑنے والایااُن سے دشمنی رکھنے والا ہو۔)"
اِنَّ رَجُلاً قَالَ لِاَبی عَبْدِاللّٰہِ ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے پوچھا : النَّاصِبُ یَحِلُّ لِیْ اغْتِیَالُہ ؟کیا ناصبی (یعنی اہل بیت کے کھلے دشمن) کی امانت میں خیانت میرے لئے جائزہے ۔؟ قَالَ اَدِّ الْاَمَانَةَ اِلٰی مَنْ اِْتَمَنَکَ وَاَرَادَ مِنْکَ النَّصِیْحَةَ وَلَوْاِلٰی قَاتِلِ الْحسُیَیْنِ (وسائل الشیعہ،کتاب امانت، باب ،صفحہ ۶۴۱)
امام نے جواب دیا : ہر اس شخص کی ا مانت کالحاظ کروجس نے تمہارے پاس امانت رکھائی ہے یا تم سے نیک مشورہ طلب کیا ہے، اگرچہ وہ حسین کاقاتل ہی کیوں نہ ہو!!" اسی جیسی ایک اور روایت یہ ہے: عَنْ الْحُسَیْنِ الشُّبَّانِّی قَالَ قُلْتُ لِاَبِیْ عَبْدِاللّٰہ ِ حسین شبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کیا رَجُلُ مِّنْ عِنْدَہ مِّنْ مَّوَالِیْکَ یَسْتَحِلُّ مَالَ بَنی اُمَیَّةَ وَدِمَائَھُمْ وَاَنَّہ وَقَعَ لَھُمْ عِنْدَہ وَدِیْعَة " آپ کے چاہنے والوں میں سے ایک شخص ہے جو بنی امیہ کا مال اور خون اپنے اوپر حلال سمجھتاہے اور بنی امیّہ کے لوگوں کی کچھ امانتیں بھی اس کے پاس ہیں ۔ " فَقَالَ اَدُّ واالَاَمَانَةَ اِلٰی اَھْلِھَا وَاِنق کَانَ مُجُوْسِیًّا (وسائل الشیعہ ) امام علیہ السَّلام نے فرمایا: "امانت کو اسکے مالک تک بروقت اورباحفاظت لوٹادو، اگر چہ امانت رکھوانے والے مجوسی ہی کیوں نہ ہوں!"
چھٹے امام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیاَ اِلّا بِصِدِقِ الْحَدِیْثِ وَاَدَاءِ الْاَمَانَةِ اِلٰی الْبِرِّ وَالْفَاجِرِ (وسائل الشیعہ ) "خدائے تعالٰی نے کوئی بھی نبی مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ سچ بولنے اور نیک وبدہر قسم کے لوگوں کی امانت کا لحاظ رکھنے کے حکم کے ساتھ مبعوث فرمایاہے۔"
عَنْ محمّدبن الْقاسِمِ قَالَ سَئَلْتُ اَبَا الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ اِسْتَوْدَعَ رَجُلًا مالَاً لَّہ قِیْمَةُ وَالرَّجُلْ الذّیْ عَلَیہِ الْمَال رَجُلُ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْدِرُ عَلٰی اَنْ لَا یُعْطِیَہ شیئاً وَالرَّجُلْ الَّذِیْ اسْتَوْدَعَہ خَبِیْثُ خَارِجِیُ محمدبن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے ابو الحسن حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے دوسرے شخص کے پاس کچھ قیمتی مال امانت کے طور پرر کھایا ہے۔ امانت کی ذمہ داری قبول کرنے والا شخص عرب ہے اور اتنی طاقت رکھتا ہے کہ امانت میں میں سے کچھ نہ لوٹائے۔ جبکہ امانت رکھوانے والا شخص خبیث اور خارجی (اہل بیت کا دشمن ) ہے" قَالَ لِیْ قُلْ لَّہ یُرْعَلَیہِ فَاِنَّہ ائِتَمََنَہ عَلَیہِ بِاَمَانَةِاِللّٰہِ (وسائل الشیعہ ) امام نے فرمایا:"اُس کے پاس خدا کی امانت رکھائی ہے!" (یعنی ایسی امانت رکھائی ہے جسے کے لحاظ کا خدانے حکم دیاہے!)عَنْ عَلِّی بن الْحپسین یَقُوْلُ لِشِیْعَتِہِ حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام اپنے شیعوں سے فرماتے ہیں:
عَلَیْکُمْ بِاَراء الْاَمَانَةِ فَوَالَّذِیْ بَعَثَ مُحَمَّدًابِالْحَقِّ نَبیًا لَو اَنَّ فَاتِلَ اَبِیَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِّی اٍئْتَمَنَنِیْ عَلَی السََّیْفِ الّذِیْ قَتَلَہ بِہ لَاَدَّیْتُہ اَلَیْہِ (وسائل الشیعہ ،، کتاب امانت ) "تمہارا فرض ہے کہ تم امانت کو بروقت اداکرو اُس ذات کی قسم جس نے محمد کو برحق نبی کے طور پر معبوث کیا، اگر میرے بابا حسین ابن علی کاقاتل بھی میرے پاس وہ تلوار امانت کے طور پر رکھوادے جس سے اسنے اُن کو قتل کیا تھا تو میں ضرور اسے برو قت واپس کرتا!!!

شیطان بہکاتاہے

ہر وہ کام جو شرعی لحاظ سے اہم ہوتاہے، جتنا زیادہ اہم ہوتاہے۔ شیطان اس بارے میں اتنا ہی زیادہ بہکانے کی کوشش کرتا ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:
مَن اِئْتُمِنَ عَلٰی اَمَانَةٍ فَاَدَّاھَا فَقَدْ حَلَّ اَلْفَ عُقْدَةِ مِّنْ عُقَدِ النَّارِ "جس شخص کے پاس امانت رکھائی گئی ہوا ور وہ اسے بروقت ادا کردے تو وہ جہنم سے بندھی ہوئی اپنی ایک ہزار گرِہوں کو کھول لیتاہے!"
فَاَدِرُوْا بالَاَمانة " پس امانت کی ادائیگی کے سلسلے میں سُستی نہ کرو" ۔ فَاِنَّ مَنْ اِئْتُمِنَ عَلٰٰی اَمَانَةٍ وَکَّلَ بِہ اِبْلِیْسُ مِاَةَ شَیْطَانٍ مِنْ مَّرَدَةِ اَعْوَانِہ لِیَضِلُّوہ وَیُوَسْوِسُوْاا اِلَیْہِ حَتَّی یُھْلِکُوْہ اِلَّا مَنْ عَصِمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ"بے شک جس شخص کے پاس امانت رکھائی جاتی ہے ابلیس اپنے سو سرکش اور مددگار شیطانوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے تاکہ وہ اسے گمراہ کریں اور اس کے دل میں خیانت کرنے کا وسوسہ پیدا کریں! وہ اس وقت تک اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اسے ہلاکت میں نہیں ڈال دیتے۔ بس وہی ان کے شر سے بچا رہتا ہے جس کو خدا بچائے۔


(۱) امانتِ خد

سورئہ احزاب میں ارشاد ہے کہ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ علٰی السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (سورئہ احزاب ۳۳: آیت ۷۲) "ہم نے اپنی امانت کو سارے آسمان اور زمیں اورپہاڑوں کے سامنے پیش کیاجو انہوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے۔ لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک انسان اپنے حق میں بڑا ظالم اور نادان ہے۔"
یہاں خدا کی امانت سے کیا مراد ہے اس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ امانت نعمتِ عقل ہے۔ اس امانت کی صحیح حفاظت یہ ہے کہ اس کے ذریعے آدمی اپنے معبود کو پہچانے اور اسی کی راہ پر چلے۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ نے واجبات اور محرمات کو جو احکام اپنے پیغمبر کے توسط سے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ وہ خدا کی امانت ہیں، اور ان کی پابندی ہی امانت کی حفاظت ہے۔ ظاہر ہے کہ آسمان و زمین میں اور پہاڑوں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ایسی امانتوں کی حفاظت کر سکیں اس لئے انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن انسان ایسی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے قبول کرلیا۔ بے شک انسان ظَلُوْم اور ظَالم ہے اپنی غضب والی قوت کو عقل والی قوت پر ترجیح دے دیتا ہے اور امانتِ خدا میں خیانت کر بیٹھتا ہے۔ اور بے شک انسان جہول اور نادان ہے۔ اپنی شہوت والی قوت کی پیروی کر بیٹھتا ہے اور اس کے زور میں امانتِ خدا میں خیانت کرنے کے عذاب سے بے خبر ہو جاتا ہے!

د ولت عقل اور امانت د اری

عقل بھی خدا کی ایک بڑی امانت ہے اور اس کی امانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہر وقت عقل ہی کا لحاظ کرے، کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے جو عقل کے حکم یا اذن کے بغیر ہو۔ اگر آدمی عقل کو مغلوب کر کے رکھے اور شہوت یا غضب جیسی قوتوں کی پیروی کرے تو وہ خدا کی اس اہم امانت میں خیانت کر بیٹھے گا۔ پروردگارِ عالم نے اپنے بندوں کو جوتکالیف شرعیہ دی ہیں یعنی ان کے لئے حلال و حرام کو بیان فرمایا ہے، ان کی نسبت امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہر ممکن کوشش کر کے اپنی شرعی ذمہ داریوں کو سمجھے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مسئلے میں یہ تک نہ جانتا ہو کہ اس بارے میں حکمِ خدا کیا ہے؟ اپنی تکلیف شرعی کو سمجھ لینے کے بعد اس سلسلے میں امانتداری کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسے دل کی گہرائی سے قبول کرے اس اس پر مکمل طور سے عمل پیرا ہو۔
امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں (عن الباقر) فَخِیٰانَةُ اللهِ والرَّسُولِ مَعْصِیَتُھُمَا وَاَمَّا خِیَانَةُ الْاَمَانَةِ فَکُلُّ اِنْسَانٍ مَاْمُوْنُ عَلٰی مَا افْتَرَضَ اللهُ تعٰالٰی عَلَیْہِ (تفسیر صافی) "خدا اور رسول کے ساتھ خیانت ان کی نافرمانی ہے اور جہاں تک امانت میں خیانت کا تعلق ہے، ہر انسان خدائے تعالیٰ کے دئیے ہوئے فرائض کا امانتدار ہے۔" یعنی واجباتِ خدا ہر انسان کے پاس امانت ہیں اور اس ا مانت کی حفاظت ان کی پابندی ہے۔
اِنَّ عَلِیًّا اِذَا حَضَرَ وَقتُ الصَّلوٰةَ یِتَمَلْمَلُ وَیَتَزِلْزَلُ وَ یَتَلَوَّنُ۔ امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السَّلام جب نماز کا وقت ہوتا تو بے چین ہو جاتے تھے، لرزنے لگتے تھے، اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگتا تھا! فَیُقَالُ لَہ مَالَکَ یا اَمِیْرَالْمُومِنِیْنَ؟ لوگ ان سے کہتے تھے: "امیر المئومنین یہ آپ کا کیا حال ہو رہا ہے؟ فَیَقُوْلُ تو حضرت علی فرماتے تھے: جَاءَ وَقتُ الصَّلوٰةِ، وَقْتُ اَمَانَةٍ عَرَضَھَا اللهُ عَلٰی السَّمٰواتِ وَالاَرْضِ وَالجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا (تفسیر صافی) "نماز کا وقت آگیا! اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا جسے خدا نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تھا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کیا تھا اور اس سے خوف محسوس کیا تھا! "البتہ یہ بات صرف نماز سے مخصوص نہیں ہے تمام فرائضِ الہٰی خدا کی امانت ہیں، البتہ نماز ایک انتہائی اہم فریضہ ہے۔

احکامِ دین دوسروں تک پہنچائیں

اما نت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)

شیعہ اور سنی دونوں کے پاس یہ حدیث مسلم ہے کہ رسول اکرم نے اپنی وفات سے قبل فرمایاتھا: اِنیِّ تَارِکُ فِیْکُمْ الثِقِلْین کِتابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِی(بحارالانوار ،جلد۶) " میں تم لوگوں کے درمیان دوگراں چیز یں چھوڑے جارہاہوں،ایک توکتابِ خدا ہے اور ایک میری عترت ہیں۔ "اس کے بعد کاجملہ تاریخ میں یہ ہے کہ "میں قیامت کی دن تم سے سوال کروں گا کے ساتھ کیا کیا؟"
تفسیرمجمع البیان میں لکھا ہے کہ : قرآن وعترت کو ثقْلَیْن یا دوگراں چیزیں اسی لئے کہاگیاہے کہ ان کی پیروی بہت گرں گزرتی ہے۔ یہ ایسی امانتیں ہیں جن کا لحاط بہت بھاری ثابت ہوتا ہے۔ سچامسلمان وہی ہے جو اتنی بھاری ذمّہ داری اُٹھالے ۔ قرآن کے احکامپر عمل کرے اور اہلبیتِ رسول کی پیروی کرے۔ لیکن افسوس کہ امت محمدّی نے اتنی اہم امانتوں کاخیال نہیں رکھاہے۔ وَقَالَ الرّاسُوْلُ یَارَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخذُوْاھٰذاالْقُراٰنَ مَھْجُوْراً (سورئہ فرقان ۲۵:آیت ۳۰) اور (قیامت کے دن ) رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑدیا تھا!! " اے کاش کہ ہم قوم رسول کی اُس اکثریت میں شامل نہ ہوں جس کی رسول ،خداسے شکایت کریں گے۔

ا
اگر دوسروں کی امانت ملکی کی یا امانتِ شرعی کسی کے پاس ہوتو اس میں خیانت کرنا حرام ہے۔ اور جیسا کہ گزرا،یہ گناہانِ کبیرہ میں سے ہے خیانت تین گناہوں کامجموعہ ہے:
(۱)دوسروں پر ظلم ، (۲)تفریط یعنی ایک واجب کے سلسلے میں لاپرواہی۔ اور( ۳)دوسروں کے مال میں ناجائز تصرف

(۱)دوسروں کے مال میں بغیر اجازت تصرف


یہ تو بات ہوئی امانتِ ملکی کی۔ اور اگر امانت شرعی کسی کے پاس ہو تو اس کے مالک کو واپس لوٹا دے۔ اگر مالک معلوم نہ ہو تو واجب ہے کہ ایک سال تک اسے تلاش کرے ، مثلاً مساجد میں اعلان کروائے۔ ایک سال کے بعد بھی اگر وہ نہ ملے تو اس کی جانب سے وہ پورا مال صدقہ کردے۔

امانت دینے والا اور لینے والا بالغ وعاقل ہو

قرآن میں امانتداروں کا مدح

سورئہ آلِ عمران میں ارشاد ہوا: وَمِنْ اَھْلِ الکِتٰبِ مَنْ اِن تَامَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّوٴَدّہ اِلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ اِنْ تِاْ مَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُوٴَدِّہ اَلَیْکَ اِلَّا مَا رُمْتَ عَلَیْہِ قَآئِماً، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الاُمِّییِنَ سَبِیْلُ وَّیَقُوْلُوْنَ عَلٰی اللهِ الْکَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (سورئہ آلِ عمران ۳ آیت ۷۵) "اور اہلِ کتاب کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس روپے کے ڈھیر امانت رکھ دوتو بھی اُسے (جب چاہوبعینہ) تمہارے حوالے کردیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی امانت رکھوتو جب تک تم برابر (ان کے سر) پر کھڑے نہ رہو گے تمہیں واپس نہ دیں گے۔ یہ (بدمعاملگی) اس وجہ سے ہے کہ ان کا تو قول ہے کہ (عرب کے) جاہلوں کا (حق مار لینے میں ) ہم پر کوئی (الزام کی) راہ ہی نہیں ، اور وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ جوڑتے ہیں۔"
اس آیئہ شریفہ میں خداوند تعالیٰ ان عیسائیوں کی تعریف کر رہا ہے جو غیر عیسائی لوگوں کی امانت میں بھی خیانت کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ خدا ان یہودیوں کی مذمت فرمارہا ہے جو غیر یہودی لوگوں میں تھوڑے سے مال میں بھی خیانت کو روا رکھتے ہیں اور خدا پر تہمت لگاتے ہیں کہ خدا نے اس کی ان کو اجازت دے رکھی ہے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جب یہ آیئہ شریفہ پڑھی تھی تو فرمایا تھا : کَذِبَ اَعْدَاءُ اللهِ مَا مِنْ شَئٍی کَانَ فِی الجَاھِلِیة اِلَّا وَھُوَ تَحْتَ قَدَمِیْ اِلَّا الْاَمَانَةَ فَاِنَّھَا مُوٴَدَّاةُ الٰی الْبِرِّ وَالْفَاجِرِ (تفسیر مجمع البیان) "خدا کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں ! میں نے اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت کی ہر چیز اور اس کے ہر طریقے کی اصلاح کر دی ہے۔ ہاں بس امانت اپنی جگہ باقی ہے۔ امانت خواہ نیک آدمی کی ہو یا فاسق و فاجر کی ، بہر حال اسے لوٹانا ہے۔" یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے لوگ ان یہودیوں کے برابر ہیں جو خیانت کرتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی مسلمان خیانت کرنے کو جائز سمجھے تو وہ خدا کے دشمنوں میں شمار ہوتا ہے۔

امانت رکھے ہوئے مال سے اپنا نقصان پورا کرلین

آیات و روایات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امانت میں خیانت کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ کتاب نہایہ میں شیخ طوسی اور بہت سے قدیم مجتہدین نے بھی یہی فرمایا ہے۔
راوی صحیح حدیث نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: عَنْ اِلصَّادقِ اَنَّہ سَئَلَ عَن اِلرّجُلِ یَبْعَثُ اِلَی الرَّجُلِ یُقُوْلُ لَہ اِبْتَعْ لِیْ ثوْباً، فیَطلُبُ لَہ فِی السُّوْقِ، فَیَکُوْنُ عِنْدَہ مِثلُ مَا یَجِدُ لَہ فِی السُّوْقِ فَیُعْطِیُہ مِنْ عِنْدِہ۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے کہا! " ایک شخص نے دوسرے شخص کو یہ کہہ کر بھیجا کہ میرے لئے فلاں کپڑا خرید لاؤ۔ پس اس دوسرے شخص نے بازار میں وہ کپڑا تلاش کیا تو اس نے دیکھا کہ جو کپڑا پہلے شخص کو مطلوب ہے وہ اس کے پاس پڑا ہوا ہے۔ پس وہ دوسرا شخص کچھ بتائے بغیر اپنا کپڑا اسے دے کر اس کے عوض میں بازار سے خریدے ہوئے مال اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟"
قَالَ لَایَقْرِبَنَّ وَلُا یُدَنِسْ نَفْسَہ یعنی امام نے فرمایا: اُس کو ایسی حرکت کا سوچنا بھی نہیں چاہیئے اور اس طرح اپنے نفس کو آلودہ نہیں کرلیناچاہیئے ۔۔ " پھرامام نے سورئہ احزاب کی آیت ۷۲تلاوت فرمائی اورپھر ارشاد فرمایا (قَالَ وَاِنْ کَانَ عِنْدَہ خَیْرُ مِّمّا یَجِدُلُہ فِیْ السُّوْقِ فَلاَیُعْطِیَہُ من عِنْدِہ (تفسیر صافی نقل از "تہذیب") یعنی
"اگر چہ کہ اس کے پاس برابر والی چیز سے بہتر ہو تب بھی وہ اپنی طرف سے (یعنی پہلے شخص کوکچھ بتائے بغیر ) نہ دے ۔ "اس لئے کہ اصل معاملہ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا شخص پہلے شخص کی رقم لے کر بازار سے ایک مخصوص کپڑا لے آئے ۔ پس اس معاملے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی خیانت ہوگی ۔
سلیمان بن خالد کہتے ہیں:
میں نے حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السّلام سے پوچھا کہ : ایک شخص میرا قرضدا ر تھا لیکن نہ صرف یہ کہ اس نے قرض ادا نہیں کیا بلکہ جھوٹی قسم بھی کھالی کہ کسی قرض کاسلسلہ نہیں ہے۔ اس کے بعد اس نے اپناکچھ مال میرے پاس امانت کے طو پر رکھوایا ہے۔ آیا میں اس کی امانت کو اپنے قرض میں کاٹ کر خوداستعمال کرسکتا ہوں ؟ : قَالَ اِنَّہُّ خَانَکَ فَلا تَکُنْقہ وَتَدْکُلُ فِیْمَا عَیَّبْتَہ عَلَیْہِ (کتاب " نہایہ ") امام نے جواب دیا : "بیشک جس نے تمہاے ساتھ خیانت کی لیکن تمہیں اس کے ساتھ خیانت نہیں کرنی چاہئے ۔ ابھی تم نے اس کاجو عیب بتایا اس کے زمرے میں تمہیں بھی داخل نہیں ہوجانا چاہیئے۔
جیسا کہ بیان ہوا،شیخ طوسی ودیگر قدیم مجتہدین مطلق آیتوں اور ایسی روایتوں کی روشنی میں یہ فتوی دے چکے ہیں کہ خیانت کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لیکن کتاب "ملحقات عروة الوثقیٰ"کے قضاوت والے باب میں مرحوم سید کاظم طباطبا ئی فرماتے ہیں : "مجتہدین کے درمیان مشہوریہ ہے کہ امانت کے مال سے اپنا جائز حق وصول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ " خود مرحوم سید کاظم طباطبائی کابھی یہی فتویٰ تھا لیکن احتیاط یہ ہے کہ ایسا کام نہ کیا جائے۔
اسی طرح اگر ایک شخص کسی کوکچھ مال دے اور کہے کہ "یہ مال سادات یا غریبوں تک پہنچادو" اور اتفاق سے جس کو مال دیا گیا ہے وہ خود بھی سید یاغریب ہو توو ہ مالک کی اجازت کے بغیر خود اس مالک کی تصرف نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر معلوم ہوکہ اگرخود وہ تصرّف کرلے تو بھی مالک راضی ہوگا تو درست ہے۔

خیانت کا بوجھ اور روز قیامت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :
(قَالَ) اَلَالا یَغُلَّنَّاَحَدُ بَعِیْراً فَیاَْتِیْ بِہ عَلٰی ظَھْرِہِ رُ عاَءُ
"خبردار! کوئی شخص ایک اونٹ کی بھی خیانت کا مرتکب ہرگز نہ ہو ۱ ورنہ وہ قیامت کے دن اُسی اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کرآئے گا اور اونٹ کی طرح بلبلا رہا ہوگا !"
اَلَا لَا یَغُلَّنَّ اَحَدُ فَرَسًا فَیَاْتِیْ بِہِ یَوْمَ الْقِیاَمَةِ عَلٰی ظَھْرِ ہِ لَہ حَمحَمةُ۔ "خبردار ! کوئی شخص ایک گھوڑے کی بھی خیانت کا ہر گز مرتکب نہ ہو! ورنہ وہ قیامت کے دن اسی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر آئے گا اور ہنہنا رہا ہوگا!" فیقولُ یا محَمَّدُ یا مُحمَّدُ "ایسا خیانت کار شخص مجھے مدد کے لئے پکارے گا: یَا مُحَمَّد ! یَا مُحَمَّد! فَاَقُوْلُ قَدْ بَلّغْتُ لَا اَمْلِکُ لَکَ مِن اللهِ شَیئًا (کتاب "کافی") آنحضرت فرماتے ہیں کہ: " میں اس سے کہوں گا کہ میں نے تمہیں تبلیغ کر دی تھی۔ اب(تمہاری نا فرمانی کی صورت میں ) تمہارے متعلق خدا کے حضورمیری کوئی ذمہ داری نہیں ہے!"
علامہ مجلسی پیغمبر اکرم کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ: رُدُّوْاالْخَیْط وَالْمَخِیْطَ فَاِنَّ الْغُلُوْلَ عَارُ وَّ شَنَارُ یَوْمَ الْقَیٰمَةِ (کتاب "شرح کافی") یعنی "حتٰی دھاگہ اور سوئی تک واپس لوٹا دیا کرو۔ اس لئے کہ خیانت قیامت کے دن بہت ننگ و عار اور رسوائی کا باعث ہوگی۔
ایک شخص آنحضرت کی خدمت میں آیا ۔ وہ ایک سُوا (بڑی سوئی) بغیر اجازت لے گیا تھا۔ اس نے آنحضرت سے کہا: "میں یہ سُوا لے گیا تھا تاکہ اس سے اپنے لئے پالانِ شتر تیار کر سکوں۔" آنحضرت نے فرمایا: اگر اس سوئے میں میرا حق ہے تو میں نے اسے معاف کیا۔ اور اگر دوسرے مسلمانوں کا حق ہے تو اس کی قیمت تم دے دو تاکہ وہ بیت المال میں شامل ہو اور سب کے درمیان عدل سے تقسیم ہو!" اس عرب شخص نے کہا: "میں نہیں جانتا تھا کہ یہ اتنا سخت مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تومیں سوا اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔" یہ کہہ کر اس نے وہ سوا آنحضرت کو دیا اور چلا گیا۔

یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْما ھُمْ سے مراد

علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ میدانِ حشر میں خیانت کرنے والے شخص کے کاندھوں پر خیانت کا مال رکھا ہوا ہوگا۔ ہر آدمی کی اسی طرح کوئی نہ کوئی علامت ہوگی جس سے اُس آدمی کا گناہ پہچانا جائے گا۔ جو شخص بھی کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرے گا اور توبہ کئے بغیر مر جائے گا، خدا قیامت کے دن اُ س کے ساتھ عدل کا سلوک کرے گا۔ عدل اس حد تک ہوگا کہ جس قسم کا گناہ آدمی نے زیادہ کیا ہو اُسی کی مناسبت سے کوئی علامت بھی آدمی کے ساتھ لگی ہوگی۔ مثلاً شرابی کے ہاتھ میں شراب کی ایسی بوتل ہوگی جس کی بدبو سے اہلِ محشر کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔ اسی طرح گانا بجانے کے آلات، بجانے والے شخص کے ہاتھ میں چپکے ہوئے ہوں گے۔ اسی طرح جوا کھیلنے والوں کے ہاتھ میں جوئے کے آلات ہوں گے۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْما ھُمْ (سورئہ رحمٰن ۵۵: آیت ۴۱) یعنی "مجرموں کو اُ ن کی پیشانی سے پہچانا جائے گا۔" اس آیہ شریفہ سے یہی مراد ہے۔

رسولِ اکرم اور امانت

ایک دن مسجدِ نبوی میں ایک غریب آدمی آیا اور رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے اپنی غربت کا ذکر کرنے لگا۔ آنحضرت نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، خدا قادر ہے۔" اسی طرح ایک اور فقیر آیا، آنحضرت نے اُس سے بھی یہی فرمایا پھر ایک تیسرا غریب آدمی آیا۔ آنحضرت نے اُسے بھی بٹھا دیا۔ پھر ایک اور شخص آیا۔ اُس نے چار صاع (تقریباً بارہ سیر) گندم زکوٰة کے طور پر پیش کیا۔ آنحضرت نے ایک ایک صاع (تقریباً تین تین سیر) گندم تینوں میں سے ہر ایک غریب آدمی کو دیا۔ ایک صاع یعنی تقریباً تین سیر گندم بچ گیا۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد آنحضرت نے خود اعلان فرمایا کہ ایک صاع گندم موجود ہے، جو شخص بھی مستحق ہو آکر لے لے۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ مجبوراً آنحضرت زکوٰة کی وہ امانت اپنے گھر لے گئے۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ اس رات آنحضرت فکر مند نظر آرہے تھے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: "مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں آج مرجاؤں اور یہ امانت مستحق تک نہ پہنچے بلکہ میرے پاس رہ جائے!"
نیز مروی ہے کہ جب آنحضرت پر مرض الموت طاری تھا تو آپ کے پاس غریبوں کو دینے کے لئے چھ یا سات دینار کا مال رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت نے اُسے طلب فرمایا۔ اور اس کو گن کر کہا: "ہو سکتا ہے کہ محمد خدا کے حضور پہنچ جائے اور یہ دینار اُس کے ذمے پڑے رہ جائیں!" پھر آنحضرت نے امیرالمومنین حضرت علی علیہاالسَّلام کو یہ دینار فقیروں تک پہنچانے کے لئے دیئے اور فرمایا "اب مجھے اطمینان ہو گیا!"
(ناسخ التواریخ جلد ۳ حالاتِ رسولِ خدا ص ۵۴۴)

راز کی باتیں بھی امانت ہیں

کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ کسی کی راز کی بات کسی کے پاس ہوتی ہے، اور وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کسی اور کو نہ بتائے۔ ایسی بات بھی ایک امانت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی راز کی بات آدمی کو خود بخود معلوم ہوجائے یعنی جس شخص کے متعلق وہ بات ہے، خود اس نے نہ بتائی ہو، لیکن اندازہ ہو کہ وہ شخص پسند نہیں کرے گا کہ وہ بات پھیل جائے۔ ایسی بات بھی شرعی لحاظ سے امانت ہے۔ دیکھی یا سنی ہوئی راز کی بات فاش کر دینا خیانت ہے کتاب "غرر الحکم" میں حضرت امیرالمومنین کا یہ قول موجود ہے کہ: اِذَاعَة سِرٍّ اُوْدِعْتَہ غَدْرُ یعنی "راز کی جو بات تمہیں راز رکھنے کے لئے سنائی گئی ہو، اُسے فاش کردینا خیانت اور غداری ہے!"
راز کی بات خواہ دوست کی ہو یا دشمن کی، خواہ اچھے آدمی کی ہو یا بُرے آدمی کی، جب وہ امانت کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بہر حال اُسے فاش کرنا حرام ہے۔

آپس کی باتیں بھی امانت ہیں

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ: المُجَالِسُ بِالْاَمَانَةِ وَلَا یَحِلُّ لِمُوٴْمِنٍ اَنْ یَّقُوْلَ عَنْ اَخِیْہِ الْمُوٴْمِن قَبِیْحاً (بحارالانوار جلد ۱۶) یعنی "ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال کرنا چاہیئے کسی مومن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مومن بھائی کی کوئی بڑی بات فاش کردے۔"
نبی کریم سے حضرت ابوذر نقل کرتے ہیں (عَنِ النَّبِیِّ) یَا اَبٰاذَرٍ اَلْمُجَالِسُ بِالاَمَنَةِ وَاِفْشَاءُ کَ سِرَّ اَخِیْکَ خِیَانَةُ فَاجْتَنِبْ ذٰلِکَ (وسائل الشیعہ) "اے ابوذر! ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال کرنا چاہیئے۔ اگر تم اپنے مومن بھائی کا راز فاش کردو گے تو خیانت کر بیٹھو گے۔ پس ایسے کام سے بچو۔"
ایک بیٹھک یا میٹنگ میں جو باتیں بھی ہوتی ہیں وہ اُس کے افراد کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ جو بات چھپانے کے لائق ہو، اُسے فاش نہیں کرنا چاہیئے۔ روایت میں ہے کہ: اَلمُجَالِسُ بِالاَمَانَةِ اِلَّا ثلَاثَةُ مُجَالِس مَجْلِسُ سُفِکَ فِیْہِ دَمُ حَرَامُ، وَمَجْلِسُ اُسْتُحِنَ فِیْہِ فَرْجُ حَرَامُ وَمجْلِسُ اُسْتُحِلَّ فِیْہِ مَالُ حَرَامُ بِغَیْرِحَقِّہِ (بحار الانوار جلد ۱۶ نقل از امالی مفید)
ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہاں البتہ تین قسم کی بیٹھکوں میں ہونے والی بات فاش کرنا حرام نہیں ہے۔ ایک وہ جگہ جہاں حرام طریقے سے کسی کی جان لینے کی بات ہورہی ہو۔ ایک وہ جگہ جہاں زنا کا پروگرام طے پارہا ہو۔ اور ایک وہ جگہ جہاں ناحق حرام مال کھانے کی بات ہو رہی ہو۔ "ایسی جگہوں پر ہونے والی باتیں کسی کا حق ثابت کرنے کے موقع پر قاضی کے سامنے گواہ بن کر پیش کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ بعض موقعوں پر بات کی اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ راز فاش نہ کرنا حرام ہوتا ہے۔
سورئہ تحریم میں پروردگارِ عالم ازواجِ پیغمبر میں سے بعض کو سر زنش کر رہا ہے کہ انہوں نے آنحضرت کے ساتھ خیانت کی تھی اور آپ کا راز فاش کر دیا تھا۔ خدا ان دونوں کو توبہ کرنے کی ہدایت دے رہا ہے اور فرمارہا ہے کہ: اِنْ تتُوْبَا اِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمٰا (سورئہ تحریم ۶۶: آیت ۴) " اگر تم دونوں توبہ کرو تو بہتر ہے، کیونکہ تمہارے دل تاریک ہوگئے ہیں۔"
اسی سورت میں حضرت نوح اور حضرت لوط پیغمبروں کی بیویوں کا بھی کچھ یوں ذکر ہے: فَخَانَتٰا ھُمَا فَلَمْ تُغْنِیٰا عَنْھُمَا مِنَ اللهِ شیْئًا وَقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ (سورئہ تحریم ۶۶: آیت ۱۰) "دونوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ خیانت کی (گھر کے راز فاش کردئیے) تو ان کے شوہر خدا کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہوجاؤ۔"

راز کی باتیں بتا دینا امانت میں خیانت ہے

عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سِنَانَ قَالَ قُلْتُ لَہ عبدالله بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے پوچھا: عَوْرَةُ المُوْمِنِ عَلَی الْمُوْمِنِ حَرَامُ؟ مومن کی چھپائی جانے کے لائق چیز مومن پر حرام ہے؟ قَالَ نَعَمْ امام نے جواب دیا: "ہاں" قُلْتُ تَعْنِیْ سِفْلَیْہِ میں نے پھر پوچھا: "کیا آپ نے اس سے مراد پیشاب اور پاخانے کے مقامات لئے ہیں؟" قَالَ لَیْسَ حَیْث تَذْھَبُ امام نے فرمایا: "وہ بات مراد نہیں ہے جدھر تمہارا دھیان جارہا ہے۔" اِنَّمَا ھُوَ اِذَاعَةُ سِرِّہ (کتاب "کافی") "(اگرچہ کہ مومن کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی حرام ہے، ) لیکن میری مراد مومن کا راز فاش کردینا ہے۔"
امام یہ بھی فرماتے ہیں : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتاً مُوٴمِناً فَاَدّیٰ فِیْہِ الْاَمَانَةَ غُفِرَلَہ "جو شخص کسی مومن کی میت کو غسل دے اور اس کے سلسلے میں امانت کا خیال رکھے تو اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں " قِیْلَ وَکَیْفَ یُوٴَدِیْ فِیْہِ الْاَمَانَةَ؟ پوچھا گیا کہ " کوئی شخص میت کے سلسلے میں امانت کا خیال کس طرح رکھ سکتا ہے؟ " قَالَ لَا یُخْبِرُبِمَا یَریٰ (کتاب "امالی") امام نے جواب دیا "وہ میت کے بدن میں جوعیب دیکھے، دوسروں کو نہ بتائے۔"
گذشتہ بیان سے معلوم ہوا تھا کہ راز فاش کرنا بطور کلی خیانت ہے، خواہ جس شخص کا راز ہو، اس نے خود رازداری کی شرط کے ساتھ بتایا ہو، یا ایسے ہی چلتے پھرتے معلوم ہوگیا ہو۔ بہر حال راز ایک امانت ہے جس میں خیانت جائز نہیں ہے۔ یعنی جس کا راز ہے، اگر وہ اس کے کھل جانے پر ناراض ہوتا ہو تو اسے فاش کرنا خیانت اور حرام ہے۔ اس قسم کی امانت یعنی راز کی امانت کے کچھ درجے ہوتے ہیں اور اس کی کچھ قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض میں خیانت کو چغل خوری یا چغلی کہتے ہیں، اور بعض میں خیانت کو غیبت کہا جاتا ہے۔ انشاء الله ان میں سے ہر ایک کا بیان اپنے اپنے مقام پر ہوگا۔

مسلمانوں کے جنگی راز کفار تک پہنچان

یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ لَا تَخُونُوااللهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوااَمٰنٰتِکُم وَاَنْتُم تَعْلَمُوْنَ
(سورئہ انفال ۸: آیت ۲۷)
یعنی "اے ایمان لانے والو، نہ تو خدا اور رسول کی خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم سب کچھ سمجھتے بوجھتے ہو۔"
اس آیہ شریفہ کی شانِ نزول میں جابر ابن عبدالله سے منقول ہے کہ ایک دن جبرئیل نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خبر دی کہ ابوسفیان فلاں جگہ مشرکوں کے ایک لشکر کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔ آپ اس سے جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ اور اس خبر کو پوشیدہ رکھیں تاکہ اچانک ان پر حملہ کر سکیں۔ منافقین میں سے ایک شخص نے یہ خبر لکھی اور ابوسفیان کو مسلمانوں کے اچانک حملہ کرنے والے پروگرام سے آگاہ کردیا۔ اس کے علاوہ اسی آیت کے ذیل میں ابو لبابہ نامی شخص کی خیانت اور اس کی توبہ کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔

http://www.alhassanain.com/urdu/book/book/ethics_and_supplication/ethics_books/gunahaan_e_jabeera/018.html
الرجوع الى أعلى الصفحة اذهب الى الأسفل
https://duahadith.forumarabia.com
 
حديث عن الامانة
الرجوع الى أعلى الصفحة 
صفحة 1 من اصل 1
 مواضيع مماثلة
-
» حديث عن صبر
» حديث 1 ...
» حديث عن زهد
» حديث عن صمت
» حديث عن ظلم

صلاحيات هذا المنتدى:لاتستطيع الرد على المواضيع في هذا المنتدى
اهل البيت :: الفئة الأولى :: quran dua hadith in urdu باللغة الباكستان :: حديث-
انتقل الى: